۲۴ آبان ۱۴۰۳ |۱۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 14, 2024
علامہ روشن علی خاں

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | آیت اللہ روشن علی خاں نجفی نے سن 1354ہجری میں سرزمین منیہار پورضلع سلطانپور کی سرزمین پرپیدا ہوئے ۔ موصوف کے والد "رجب علی خاں" اپنے خاندان کی معزز شخصیت کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے۔

علامہ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی، پھر شہر لکھنؤ کے لئے عازمِ سفر ہوئے اور جامعہ ناظمیہ میں قیام کے دوران حکیم محمد اطہر، مفتی احمد علی، مولانا رسول احمد گوپالپوری اور بابائے فلسفہ علامہ ایوب حسین سرسوی وغیرہ جیسے جیّد اساتذہ سے کسب فیض کیا۔

جامعہ ناظمیہ سے فراغت کے بعد عراق کا رخ کیا اور نجف اشرف کے حوزۂ علمیہ میں سکونت اختیار کرنے کے بعد آیت اللہ سید محسن الحکیم طباطبائی اور آیت اللہ سید ابوالقاسم موسوی خوئی کی زیر سرپرستی عربی ادبیات اور فقہ و اصول میں مہارت حاصل کی۔

علامہ روشن علی خاں آٹھ سال تک نجف اشرف میں مصروفِ تعلیم رہے، پھر نجف سے ہندوستان واپس آئے اور جامعہ ناظمیہ میں استاد کی حیثیت سے پہچانے گئے، آپ نے جامعہ ناظمیہ میں حوزۂ نجف کا تدریسی طرز اپنایا جو اہل علم کے حلقہ میں سراہا گیا۔

کچھ عرصہ تک جامعہ ناظمیہ میں تدریسی امور انجام دینے کے بعد بنگلور کا رخ کیا جہاں تبلیغ دین کے فریضہ کو بنحو احسن انجام دیا۔ کچھ عرصہ بعد بنگلور سے میرٹھ کے لئے عازمِ سفر ہوئے اور وہاں کے مشہور و معروف حوزہ علمیہ " منصبیہ عربی کالج" کی مدیریت سنبھالی۔

علامہ موصوف نے چند سال منصبیہ عربی کالج کی مدیریت کے فرائض انجام دینے کے بعد قم المقدسہ کی جانب رخ کیا اور وہاں پہنچنے کے بعد تالیف و تصنیف میں سرگرمِ عمل ہوگئے، آپ نے وہاں رہتے ہوئے بہت سی عربی و فارسی کتابوں کا سلیس اردو میں ترجمہ کیا۔

علامہ روشن علی کی شاگرد ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اوردیگر ممالک میں نمایاں شخصیات کے مالک ہیں، جن میں سے: علامہ ادیب الہندی، مولانا ذکی باقری (کینیڈا)، مولانا منظور محسن(علیگڑھ یونیورسٹی)، مولانا ناظم علی خیرآبادی، مولانا صفی حیدر (سکریٹری تنظیم المکاتب) اور مولانا ناصر عباس پھندیڑوی وغیرہ سرفہرست ہیں۔

اللہ نے آپ کو 1 رحمت اور 3 نعمتوں سے نوازا آپ کے فرزندوں کو محمد عباس ،حسن عباس، اور مولانا علی عباس کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

علامہ روشن علی نے تحریری صورت میں دین اسلام کی بہت زیادہ خدمات انجام دیں، جن میں سے کچھ آپ کی تالیفات و تصنیفات ہیں اور کچھ دیگر زبانوں سے اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے، ان کی کتابوں میں سے: ولایت فقیہ امام خمینیؒ، توضیح المسائل امام خمینیؒ، مغربی تمدّن کی ایک جھلک، اسلام کے بنیادی عقائد، پھر میں ہدایت پاگیا تالیف تیجانی سماوی، سچوں کے ساتھ ہوجاؤ، خاشعین کی نماز، تحریف قرآن، عدالت صحابہ کا نظریہ، کشکول قاضی زاہدی، گفتار دلنشیں، ولایت فقیہ تالیف آیت اللہ منتظری، یہ ہے وہابیت، چہل حدیث تالیف امام خمینیؒ اور دادگستر جہان تالیف آیت اللہ ابراہیم امینی وغیرہ جیسے دُرہائے آبدار کا تذکرہ کرنا نہایت ضروری ہے۔

آخر کار میدانِ علم و عمل کا شہسوار جس کو دنیا روشن علی کے نام سے جانتی تھی، زندگی کے نشیب و فراز سے خستگی کی نذر ہوگیا اور یہ تالیف و تصنیف کا روشن چراغ سن 1416ہجری میں سرزمین لکھنؤ پر گل ہوگیا، آپ کے فراق میں نورِ علم سے محرومیت کا احساس کرنے والوں کا مجمع پچھاڑیں کھا رہا تھا، ہزاروں علماء، افاضل، طلاب اور مومنین کی موجودگی میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور امامبارگاہ غفرانمآب میں سپردِ لحد کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص331، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .